فہرست مضامین
- دمشق سے ایک پکار
- ایک مشن کے ساتھ صحافی
- ٹائس کی آزادی کی جدوجہد
- امید زندہ ہے
دمشق سے ایک پکار
آسٹن ٹائس، ایک آزاد اور بہادر صحافی، 14 اگست 2012 کو دمشق، شام میں لاپتہ ہو گیا۔ خانہ جنگی کی حقیقت جاننے کی کوشش میں، اس کا مقدر غیر یقینی ہو گیا۔
کیا آپ تصور کر سکتے ہیں کہ ایک 31 سالہ نوجوان کی ہمت جو ٹیکساس چھوڑ کر ایک قوم کے دکھوں کو دنیا کے سامنے لانے کا فیصلہ کرتا ہے؟
اس دن، ایک چیک پوسٹ پر وہ غائب ہو گیا۔ اس لمحے سے، صرف 43 سیکنڈ کی ایک مختصر ویڈیو نے اشارہ دیا کہ وہ زندہ ہو سکتا ہے، لیکن اس کی فیملی، دوستوں اور ساتھیوں پر بے یقینی چھا گئی۔
ایک مشن کے ساتھ صحافی
آسٹن محض ایک رپورٹر نہیں تھا۔ بچپن سے ہی اس نے صحافت کے لیے بے پناہ جذبہ دکھایا۔ صرف 16 سال کی عمر میں اس نے ہیوسٹن یونیورسٹی میں تعلیم شروع کی اور 2002 میں جورج ٹاؤن سے فارغ التحصیل ہوا۔
مارین کور میں شامل ہونا اس کی خدمت کا آغاز تھا۔
عراق اور افغانستان کے خوفناک مناظر دیکھنے کے بعد، اس نے فیصلہ کیا کہ اس کا اگلا مشن شام ہوگا۔ اس نے سی بی ایس اور واشنگٹن پوسٹ جیسے بڑے میڈیا اداروں کے ساتھ کام کیا، تاکہ شامی عوام کی آواز دنیا تک پہنچا سکے۔
کیا یہی نہیں ہم سب چاہتے ہیں، کہ مشکلات کا سامنا کرنے والوں کی کہانیاں سنیں؟
ٹائس کی آزادی کی جدوجہد
اب، اس کی گمشدگی کی دسویں سالگرہ پر، صدر بائیڈن نے واضح کیا ہے کہ وہ ہار نہیں مانیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ٹائس شام کے حکومتی قبضے میں ہے، جس کی وجہ سے امریکی حکام نے اس کی رہائی کے لیے کوششیں تیز کر دی ہیں۔
سیکریٹری آف اسٹیٹ اینٹونی بلنکن نے بھی کہا ہے کہ امریکہ کا ٹائس کی رہائی کے لیے عزم مضبوط ہے۔
2018 میں، اسے واپس لانے والی معلومات کے لیے ایک ملین ڈالر انعام کا اعلان کیا گیا تھا۔
اس کی واپسی کیوں اتنی اہم ہے؟ کیونکہ ٹائس میں ہر صحافی کی نمائندگی ہوتی ہے جو دنیا میں آزادی صحافت کی جدوجہد کی علامت ہے۔
امید زندہ ہے
روس میں قید صحافیوں کی حالیہ رہائیوں نے امید کی کرن دکھائی ہے۔ واشنگٹن پوسٹ جیسے صحافتی ادارے ان پیش رفتوں کو سراہتے ہیں، لیکن یاد دلاتے ہیں کہ ٹائس کا کیس اب بھی ایک کھلی زخم ہے۔
جمہوریت میں آزادی صحافت لازمی ہے، اور ہر گزرتے دن کے ساتھ جب آسٹن کی خبر نہیں آتی، یہ یاد دہانی ہوتی ہے کہ جدوجہد ختم نہیں ہوئی۔
واشنگٹن پوسٹ کے مدیران کے الفاظ گونجتے ہیں: "ہمیں امریکی صحافی آسٹن ٹائس اور تمام غلط طور پر قید صحافیوں اور یرغمالیوں کی صحت مند واپسی کے لیے دفاع جاری رکھنا چاہیے"۔
تو، عزیز قاری، اگر آپ ہماری معاشرت میں صحافت کی قدر پر غور کر رہے ہیں، تو آسٹن ٹائس کو یاد کریں۔
یاد رکھیں کہ اس کی کہانی صرف اس کی نہیں، بلکہ ان بہت سے لوگوں کی ہے جو سچائی تلاش کرتے ہیں ایک ایسی دنیا میں جو سایوں سے بھری ہوئی ہے۔ آزادی صحافت سب کے لیے اولین ترجیح ہونی چاہیے۔
کیا آپ اس جدوجہد میں شامل ہوں گے؟
مفت ہفتہ وار زائچہ کے لیے سبسکرائب کریں
برج اسد برج حمل برج دلو برج سنبلہ برج عقرب برج قوس برج میزان ثور جدی جوزا کینسر مچھلی